Sunday, 19 February 2017

1994 کا عراق اور 2017 کا عراق ۔۔۔

 اکتوبر 1994 میں عراق سے اپنے تعلیمی سفر سے واپسی کے بعد ابھی جب 7 جنوری 2017 کو عراق کے دارالحکومت بغداد شریف کے ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو میں عجیب قسم کے تصورات میں کھویا ہوا تھا ۔ رنجیدہ لرزیدہ اور بوسیدہ عراق کے شہر بغداد شریف کی شاہراہوں اور در و دیوار کو میں بڑی حسرت سے دیکھ کرہا تھا مجھے یقین نہیں آرہا رھا یہ وہی بغداد شریف ہے جو عراق کا دارالحکومت روحانیت کا دار الخلافہ اور ہنستے بستے تمدن کا گہورارہ رہا ہے
بندہ نا چیز 1993 اور 1994 میں عراق میں طلب علم کا ایک زمانہ بسر کیا اس وقت کا عراق بھی کئی سالہ پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا اور طویل ایران ، عراق جنگ اور خلیج کی جنگ کے بعد کافی تھکا ہوا اور نادار تھا مگر اس وقت عراق ایک خوددار اور خود مختار ملک تھا۔ مغربی اتحاد ، اسرائیل اور ایران کی ہمہ وقتی عداوت اور سازشوں کے باوجود پورے عراق کی امن و امان کی صورت حال قابل رشک تھی اس وقت عراق ڈسپلن ، قانون کی حکمرانی ،اور مکمل سیکورٹی کا نام تھا ہم نے عراق میں اپنے  زمانہ طالب علمی میں کبھی کسی دھماکے کے بارے میں نہیں سنا تھا رات کے آخری پہر بھی ہم نے سفر کیا دیہاتوں کا بھی سفر کیا مگر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا ۔ لیکن سیکورٹی کا اہتمام تو ایک پرائمری سکول کی بلڈنگ کے لئے بھی تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بارہم کچھ دوست دجلہ میں کشتی پرسوار تھے ہم دجلہ کے پانیوں اور اردگرد کی ویرانیوں کو سامنے رکھ کر کہنے لگے کہ یہاں تو کوئی سکیورٹی والا موجودنہیں ہوگا ہمارا یہ کہنا ہی تھا کہ ہمیں وسل کی آواز سنائی دی ہم ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ کہاں سے آواز آئی ہے تو ہمیں ملاح نے بتایا کہ وہ جو تھوڑے فاصلے پر دجلہ کا پل ہے اس کے نیچے فوج کا مورچہ ہے وہاں سے فوجی نے آواز دے کر بتایا ہے کہ آگے دجلہ کا ممنوعہ علاقہ ہے جہاں ہم نہیں جا سکتے لہذا ہمیں یہیں سے پیچھے جانا ہوگا اس وقت کے عراق میں فندق الرشید جو انٹر نیشنل وفود کی آمد و رفت کا اس زمانے میں مرکز تھا اس کے مین گیٹ کے فرش میں امریکی صدر بس کی تصویر بنائی گئی تھی جس نے بھی آنا جانا ہوتا تھا خواہ وہ کسی ملک کا ڈیلیگیشن ہو اسے صدر بش کے منہ پر پاؤں رکھ کے گزرنا ہوتا تھا ۔ مگر آج کا عراق امریکہہ کے سیاسی جانشین حکمرانوں کا ہے جنہیں امریکی افواج نکلتے وقت صدام حسین سے غداری کے عوض عراق کی کٹھ پتلی حکومت تحفے میں دے کر گئی ۔ اس وقت کا عراق امریکہ کے لئے قبرستا یا جیل کہلاتا تھا مگر آج کا عراق عملا امریکہ کی ایک کالونی اور عملداری کا منظر یش کر رہا ہے اس وقت کے عراق کی سامراج دشمنی کو دیکھ کر کہا جارہا تھا ۔ 
بش کا غرور ہوگا نابود کربلا میں 

عزم حسین ہے جو موجود کربلا میں

 مگر عراق کی موجودہ قیادت نے تاریخ میں یہی لکھا جنہون نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے بے وفائی کی تھی وہ لوگ پھر ایک مرتبہ اپنی تاریخ دھرا گئے ہیں ۔ مجھے ایئر پورٹ پر اور باہر چوکیوں پر مامور عراقی سیکورٹی فورسز اور پولیس میں وہ رعب اور دم خم نظر نہیں آیا جو کبھی الحرس الجمہوری اور صدام حسین کی انتظامیہ کا تھا ۔۔  

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔