امام غیر مقلداں مولوی نذیر حسین صاحب آنجہانی کے ایک معتقد خاص قربان علی بانسوی نے ان کے اور حیدر علی وعدالحق و قنومی وغیرہم وہابیہ کے اقوال و فتاوی پر مشتمل ایک رسالہ تحفۃ المومنین لکھا ۔ کہ مطبع نولکثور کھنو میں بعد نظر ثانی مولف چھپا۔ اس کے صفحہ 17 پر ایک فتوی میں صاف لکھ دیا گیا کہ پھوپھی کے ساتھ نکاح جائز ہے جامع الشواہد میں ایک دوسرے غیر مقلد ساھب کا فتوی منقول کہ سوتیلی خالہ سے نکاح حلال ہے خود جناب نذیر حسین دہلوی نے ایک وقت فتوی دیا تھا کہ دودھ کے چچا کو بھتیجی روا کلکتہ سندریا پٹی سے 1317ھ میں سوال آیا تھا کہ ایک غیر مقلد نے اپنے ایک عالم کے فتوے سے اپنے سگے بھانجے کی بیٹی سے نکاح کر لیا اور واقعی
گر ہمیں مفتیان ہمیں افتا ۔۔۔۔ وخت و مادر حلال خواہد شدہ
اب فرض کیجئے کہ انہیں فتوی پر عمل کرکے ایک غیر مقلدہ عورت وہابیہ نحلت (مذہب باطل) نے صبح کے وقت اپنے سگے بھتیجے یا سوتیلے بھانجے ۔ یا دودھ کے چچا یا باپ کے ماموں صاحب سے نکاح کیا۔ اور وہ حضرت بھی اسی طرح غیر مقلد وہابی تھے۔ جنہوں نے اسے حلال شیر مادر سمجھ لیا۔ یا جانے دیجئے یہ جتوے نئے ہیں ۔ تو غیر مقلد صاحبوں کے پرانے پیشوا داؤود ظاہری کے نزدیک تو "جورو کی بیٹی حلال ہے جب کہ اپنی گود میں نہ پلی ہو" یو غیر مقلدہ نے اپنے سوتیلے باپ غیر مقلد سے نکاح کر لیا ۔ پھر دن چڑھے ایک دوسرے غیر مقلد صاحب تشریف لائے اور اس نوجوان آفت جان سے فرمایا ۔ کہ یہ نکاح باجماع آئمہ اربعہ باطل محض ہوا۔ تو ہنوا بے شوہر ہے ۔ اب مجھ سے نکاح کر لے غیر مقلدہ بولی کہ ہمارے مذہب کے مطابق تو ہوا ہے
اس پر وہابی مولوی صاحب بکمال شفقت فرمایاکہ بیٹی ایک ہی مذہب پر نہ جمنا چاہیے ۔ اس میں شریعت پر عمل ناقص رہتا ہے بلکہ وقتا فوقتا ہر مذہب پر عمل ہو کہ ساری شریعت پر عمل حاصل ہو ۔ غیر مقلدہ بولی ۔ کہ اچھا ۔ مگر نکاح کو تو گواہ درکار ہیں ۔ وہ اس وقت کہاں ؟ کہا اے نادان بیٹی ! مذہب امام مالک میں گواہوں کی حاجت نہیں ۔ میں اور تو اس پر عمل کر کے نکاح کر لیں۔ پھر بعد کو اعلان کر دیں گے ۔ چناچہ یہ دوسرا نکاح ہوگیا ۔ دوپہر کو تیسرے غیرمقلد تشریف لائے۔ کہ لڑکی اب بھی بے نکاحی ہے آئمہ ثلاثہ کے نزدیک اور خود حدیث کے حکم سے بے گواہوں کے نکاح نہیں ہوتا ۔ حدیث میں ایسیوں کو زانیہ فرمایا گیا ۔ میں دو نکاح لے کر آیا ہوں مجھ سے نکاح کر لے ۔ اس نے کہا اس وقت میرا ولی موجود نہیں ۔ وہابی مولوی صاحب نے فرمایا بیٹی تو نہیں جانتی ہے ۔ کہ حنفی مذہب میں جوان عورت کو ولی کی حاجت نہیں ۔ ہم اس وقت مذہب حنفی کا اتباع کرتے ہین ۔ اس پارسا کو تو ساری شریعت پر عمل کرنا تھا ۔ لہذا یہ تیسرا نکاح کر لیا ۔ تیسرے پہر کو چھتے غیر مقلد صاحب آ دھمکے ۔ کہ بیٹی ! تو اب بھی بے شوہر ہے کہ حدیث میں ہے کہ بے ولی کے نکاح نہیں ہوتا ۔ اور یہی مذہب امام شافعی اور دوسرے ائمہ کا ہے ۔ میں تیرے ولی کو لیتا آیا ہوں ۔ کہ اب شرعی نکاح مجھ سے ہو جائے ۔ اس نے کہا تم میرے کفو نہیں ۔ نسب میں بہت گھٹ کر ہو ۔ کہا تیرا ولی راضی ہے ۔ تو بھی راضی ہو جا ۔ تو پھر غیر کفو سے نکاح اکثر ائمہ کے نزدیک جائز ہے ۔ اسے تو پوری شریعت پر چلنا تھا سو چوتھا نکاح اس نے اس سے کرلیا ۔
نچوڑ کے وقت دو گھڑی دن رہے پانچویں غیرمقلد صاحب بڑی تڑک سے چمکے ۔ کہ بیٹی تو اب بھی کنواری ہے ۔ ہمارے بڑے گرو ابن عبدالوہاب نجدی و ابن القیم و ابن تیمیہ صاحبان سب حنبلی تھے ۔ حنبلی مذہب میں غیر کفو سے نکاح جائز نہیں ۔ اگرچہ عورت و ولی دونوں راضی ہوں ۔ یہ چوتھا تیرا کفو نہ تھا ۔ اب مجھ سے نکاح کر ۔ غیر مقلدہ سجدہ شکر میں گری۔ کہ خدا نے یہ چارہی پہر میں پانچویں مذہب کی پیروی دے کر ساری شریعت پر عمل کرادیا ۔ یہ کہہ کر پانچویں بار ان سے نکاح کرلیا ۔
اب وہابی صاحب فرمائیں کہ وہ وہابیہ ایک کی جورو ہے یا پانچویں کی ؟؟
اگر ایک کی ہے تو باقیوں کو اس ایک مذہب کی پابندی پر کس آیت یا حدیث صحیح نے مجبور کیا ؟؟
وہ کیوں نہیں مذاہب مختلفہ پر عمل کر کے اسے دوسروں کے لئے غیر محصنہ اورہر ایک اپنی جورو نہیں سمجھ سکتے اور وہ بے چاری وہابیت کی ماری کیوں پوری شریعت پر عمل سے روکی جا رہی ہے اوراگر ہاں اجازت ہے ۔ کہ لا مذہبی کی بدولت پانچوں صاحب اسے اپنی جورو جانیں اور وہ پارسا نازنین پوری شریعت پر عمل کرنے کو ہر شوہر کی باری میں ظاہری ، مالکی ، حنفی ، شافعی حنبلی پانچویں مذہب پر عمل کرتی کراتی رہے ۔
تو ہم تو کیا عرض کریں گے۔ مگر اپنے ہم ہم مذہب کی بنائی ہوئی کتھا کہ وہ مستزاد یاد کر لییجئے ککہ
؎ کروپدی رانی مہا بھوانی ارجن جی کی ناری
پانوں پنڈے تنکو بھوگیں اپنی اپنی باری
کہو۔ یہ کون دھرم ہے۔ فلا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم و صلی اللہ تعالی علی سیدنا و مولانا محمد و الہ واصحٰبہ اجمعین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔