بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت پانچ (افراد)کی شان میں نازل ہوئی ہے میری شان میں اور علی ﷺ و رضی اللہ عنہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنھما اور حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ عنہا کی شان میں ۔۔۔۔ جز ایں نیست اللہ تعالی ارادہ فرماتا ہے اے اہل بیت کہ تم سے ناپاکی کو دور کر دے اور تمہیں پاک کردے خوب پاک کردے
پنجتن کے معنی ہیں پانچ افراد، اور ان سے مراد حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سیدہ فاطمہ الزہرا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور آیت تطہیر ان پانچوں مقدسین کے بارے میں نازل ہوئی جس میں ویطہرکم تطہیرا موجود ہے یعنی اللہ تعالی پاک کردے پاک کرنا ، جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ پنجتن واقعی پاک ہیں
رسول اللہ ﷺ نے جب خود اپنی مبارک زبان سے خمسۃ کا لفظ فرما دیا اور خمسہ سے اپنی مراد کو ظاہر فرمانے کے لئے تفصیل ارشاد فرمادی اور صاف صاف ارشاد فرمادیا کہ آیت تطہیر کی شان نزول یہ پانچ ہیں جن کو اللہ تعالی نے پاک قرار دیا ، تو اب اس کے بعد کسی شقی القلب کا یہ کہنا کہ معاذاللہ پنجتن کو پاک کہنا جائز نہیں اور پنجتن آیہ تطہیر میں داخل نہیں بارگاہ رسالت سے بغاوت اور اللہ کے رسول ﷺ کی تکذیب نہیں تو اور کیا ہے ؟ نعوذ باللہ من ذلک
اس کا مقصد یہ نہیں کہ معاذ اللہ ان پانچ کے سوا ہم کسی کو پاک نہیں مانتے ہمارے نزدیک حضور ﷺ کی ازواج مطہرات بھی آیہ تطہیر میں داخل ہیں اسی لئے ہم انکے ساتھ مطہرات کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ان کے علاوہ اللہ تعالی کے بے شمار مقدس محبوب بندے اور بندیاں یقینا پاک ہیں اور ہم ان کی پاکی کا اعتقاد رکھتے ہیں لیکن پنجتن پاک بولنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ حدیث منولہ بالا میں خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے خمسہ کا کلمہ مقدسہ ادا ہوا پھر ان کی تفصیل بھی خود نبی پاک ﷺ نے فرمائی اور ان کی شان میں ایہ تطہیر کا نزول کا ذکر فرمایا
اگر پنجتن پاک لے لفظ کا مفہوم یہ لیا جائے کہ معتقدمین پنجتن کے نزدیک ان پنجتن کے سوا کوئی پاک ہی نہیں تو معاذ اللہ یہ الزام رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ پر بھی عائد ہوگا کیونکہ خمسۃ کا لفظ زبان رسالت کا ارشاد معلوم ہے معلوم ہوا کہ پنجتن کو پاک کہنے والے سب سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور اس کلمہ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکی انہیں پانچ میں منحصر ہے اور معاذ اللہ ان پانچ کےسوا کوئی اور پاک نہیں بلکہ یہ بھی پاک ہیں اور ان کے سوا وہ سب پاک ہیں جن کی پاکی پر کتاب و سنت پر دلیل قائم ہے
(ماہنامہ السعید ملتان شمارہ اکتوبر 1962 ص 22،23)