کل کے گستاخ اور آج کے گستاخوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں
آج کے بلاگرز بھی روشن خیال ۔۔۔۔ کل کے گستاخ بھی بہت روشن خیال تھے
ان میں سے ایک ولید بن مغیرہ تھا
وہ بھی خود کو بہت روشن خیال سمجھتا تھا کیوں نہ سمجھتا آخر اس کی ماں ایک روشن خیال عورت تھی ۔۔۔۔
آزادی اظہا رائے کا وہ از خود بہت بڑا چمپئن تھا ۔۔۔۔۔سماج میں اپنی رائے کو بیان کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔۔۔۔
ایک دن ’’جرأت ِ تحقیق ‘‘کے نشے نے آپے سے باہر کر دیا بہکتی آواز میں کہنے لگا :
وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ
اے وہ شخص کہ جس پر قرآن اتارا گیا ہے تو مجنون و دیوانہ ہے
جملے تھے یا منہ سے نکلتے شعلے ۔۔۔۔آزادی اظہار رائے کی دہشتگردی ۔۔۔۔ ظلمت میں لتھڑا روشن خیال ماں کا بیٹا بکواس کررہا تھا
کس کی شان میں ؟
کس بارگاہ میں ؟
کس کو کہا تھا؟
وہ جو کائنات کے دولہا ہیں ۔۔۔۔وہ جو محبوبِ کائنات ہیں ۔۔۔۔وہ جو مصدرِ نعمت ہیں ۔۔۔۔۔وہ ،وہ جو وہ نہ ہو تے تو کچھ نہ ہوتا ۔۔۔وہ ،وہ جو جان ہیں جہان کی ۔۔۔۔
یہ وہ دور تھا جب قرآن نازل ہو رہا تھا ۔۔۔۔محبوب کی شان میں گستاخی کی جرأت
ولید بن مغیرہ کایہ جملہ قلب ِ اطہر پر گراں گزرا
محبوب کی دل جوئی کرتے ہوئے رب تعالیٰ نے فرمایا :
وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ
قسم ہے قلم کی اور اس کے نوشتوں کی
مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ
کہ آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں
وَإِنَّ لَكَ لأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ
اور یقیناً آپ کے لیے بے پایاں اجرو ثواب ہے
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ
اور بیشک تمہاری خو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ
پس عنقریب آپ بھی ملاحظہ فرمائیں گے
بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ
اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے
محبوب کی دلجوئی کے بعد گستا خ کی مذمت کیسے کی گئی قرآن کا اسلوب ملاحظہ کیجیے ۔۔۔۔۔ گستاخ ِ رسول کے تمام عیوب کو بیان فرما دیا ،اس کو قیامت تک کے لیے رسوا کرکے رہتی دنیا تک کو بتا دیا گستاخ کے لیے عفو درگزر کی اس کے ہاں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلاَّفٍ مَّهِينٍ
(اے محبوب ) آپ کسی بھی ایسے شخص کی بات نہ سنیے جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل ،
هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ
بہت طعنے دینے والا بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھرنے والا
مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ
بھلائی سے بڑا روکنے والا حد سے بڑھنے والا گنہگار
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ
درشت خو اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا
أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ
اس پر کہ کچھ مال اور بیٹے رکھتا ہے،
إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں ،کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں
سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ
قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے
جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو روشن خیال ماں کا بیٹا تلملا اٹھا اور عالم ِ غیض میں آتش فشاں بن گیا۔
ساری روشن خیالی دھری کی دھری رہ گئی غصہ اس کی کمینگی کی انتہاء کو چھو رہا تھا فوراً ہی اپنی ماں کے پاس پہنچا اور کہا ماں ابھی ابھی محمد(ﷺ )نے میرے بارے میں کئی برائیاں بیان کی ہیں سوائے ایک برائی کہ جسے میں نہیں جانتا کہ میری اصل میں خطا ہے میری ہزاردشمنی کے باوجود مجھے یقین ہے کہ محمد (ﷺ) کی بات غلط نہیں ہو سکتی اب تو سچ سچ بتا دے معاملہ کیا ہے ورنہ تیراسر قلم کر دوں گا ۔
روشن خیال بیٹے کے یہ تیور دیکھ کر ماں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تیرا باپ نا مرد تھا اس لیے ایک چرواہے کے ساتھ میرا نا جائز تعلق قائم ہو گیا جس کے نتیجے میں تو پیدا ہوا
ولید بن مغیرہ اپنے عہد کا روشن خیال تھا یہ تاریخی حقائق ہیں کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ نہیں ہو گی
آزادی اظہا رائے کا وہ از خود بہت بڑا چمپئن تھا ۔۔۔۔۔سماج میں اپنی رائے کو بیان کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔۔۔۔
ایک دن ’’جرأت ِ تحقیق ‘‘کے نشے نے آپے سے باہر کر دیا بہکتی آواز میں کہنے لگا :
وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ
اے وہ شخص کہ جس پر قرآن اتارا گیا ہے تو مجنون و دیوانہ ہے
جملے تھے یا منہ سے نکلتے شعلے ۔۔۔۔آزادی اظہار رائے کی دہشتگردی ۔۔۔۔ ظلمت میں لتھڑا روشن خیال ماں کا بیٹا بکواس کررہا تھا
کس کی شان میں ؟
کس بارگاہ میں ؟
کس کو کہا تھا؟
وہ جو کائنات کے دولہا ہیں ۔۔۔۔وہ جو محبوبِ کائنات ہیں ۔۔۔۔وہ جو مصدرِ نعمت ہیں ۔۔۔۔۔وہ ،وہ جو وہ نہ ہو تے تو کچھ نہ ہوتا ۔۔۔وہ ،وہ جو جان ہیں جہان کی ۔۔۔۔
یہ وہ دور تھا جب قرآن نازل ہو رہا تھا ۔۔۔۔محبوب کی شان میں گستاخی کی جرأت
ولید بن مغیرہ کایہ جملہ قلب ِ اطہر پر گراں گزرا
محبوب کی دل جوئی کرتے ہوئے رب تعالیٰ نے فرمایا :
وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ
قسم ہے قلم کی اور اس کے نوشتوں کی
مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ
کہ آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں
وَإِنَّ لَكَ لأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ
اور یقیناً آپ کے لیے بے پایاں اجرو ثواب ہے
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ
اور بیشک تمہاری خو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ
پس عنقریب آپ بھی ملاحظہ فرمائیں گے
بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ
اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے
محبوب کی دلجوئی کے بعد گستا خ کی مذمت کیسے کی گئی قرآن کا اسلوب ملاحظہ کیجیے ۔۔۔۔۔ گستاخ ِ رسول کے تمام عیوب کو بیان فرما دیا ،اس کو قیامت تک کے لیے رسوا کرکے رہتی دنیا تک کو بتا دیا گستاخ کے لیے عفو درگزر کی اس کے ہاں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلاَّفٍ مَّهِينٍ
(اے محبوب ) آپ کسی بھی ایسے شخص کی بات نہ سنیے جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل ،
هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ
بہت طعنے دینے والا بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھرنے والا
مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ
بھلائی سے بڑا روکنے والا حد سے بڑھنے والا گنہگار
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ
درشت خو اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا
أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ
اس پر کہ کچھ مال اور بیٹے رکھتا ہے،
إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں ،کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں
سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ
قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے
جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو روشن خیال ماں کا بیٹا تلملا اٹھا اور عالم ِ غیض میں آتش فشاں بن گیا۔
ساری روشن خیالی دھری کی دھری رہ گئی غصہ اس کی کمینگی کی انتہاء کو چھو رہا تھا فوراً ہی اپنی ماں کے پاس پہنچا اور کہا ماں ابھی ابھی محمد(ﷺ )نے میرے بارے میں کئی برائیاں بیان کی ہیں سوائے ایک برائی کہ جسے میں نہیں جانتا کہ میری اصل میں خطا ہے میری ہزاردشمنی کے باوجود مجھے یقین ہے کہ محمد (ﷺ) کی بات غلط نہیں ہو سکتی اب تو سچ سچ بتا دے معاملہ کیا ہے ورنہ تیراسر قلم کر دوں گا ۔
روشن خیال بیٹے کے یہ تیور دیکھ کر ماں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تیرا باپ نا مرد تھا اس لیے ایک چرواہے کے ساتھ میرا نا جائز تعلق قائم ہو گیا جس کے نتیجے میں تو پیدا ہوا
ولید بن مغیرہ اپنے عہد کا روشن خیال تھا یہ تاریخی حقائق ہیں کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ نہیں ہو گی