Sunday, 2 April 2017

معاشرے کی اصلاح کا دارومدار حدود اللہ پر عمل

اسلام میں مختلف جرائم کی مختلف سزائیں مقرر ہیں چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنا زنا کرنے پر کوڑے لگانا اور ایک صورت میں سنگسار کرنا اسی طرح دیگر سزائیں بھی مقرر ہیں 
بانی اسلام ﷺ جو رحمۃ للعلمین بن کر دنیا میں تشریف لائے فتح مکہ کے موقع پر جب حضور ﷺ اپنی پوری شان و شوکت اور دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ میں داخل ہو رہے تھے تو راستے میں ایک کتی اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی نبی پاکﷺ نے ایک صحابی کو بلایا اور فرمایا تم یہاں کھڑے ہو جاؤ اور دھیان رکھو کہ کہیں میرے کسی صحابی کا پاؤں اس کتی کے کسی بچے پر نہ آجائے ۔۔۔۔۔ اللہ اکبر دس ہزار صحابہ گزرے پر کتی اور اس کے بچوں کو ذرا بھی تکلیف نہ ہوئی ۔۔۔یہ نبی پاک ﷺ کی رحمت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔۔۔۔
اس کے مقابلے میں یہ بھی آتا ہے کہ جب اشراف مکہ میں سے ایک عورت نے چوری کی تو لوگوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو سفارشی بنا کر بھیجا کہ آپ جاؤ اور نبی پاک ﷺ سے عرض کرو کہ اس عورت کو سزا نہ دیں ۔۔ نبی پاک ﷺ نے عظیم جملہ ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔ کہ اے لوگو ! یاد رکھو اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اسکے ہاتھ بھی کاٹ دیتا ۔۔۔
نبی پاک ﷺ کائنات کے ذرے ذرے کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے لیکن جہاں حدود شرعیہ کا معاملہ آیا تو نبی پاک ﷺ نے وہاں کوئی نرمی نہیں برتی ۔۔ بلکہ حدود کو جاری فرمایا ۔۔۔۔ اگر کسی نے قتل کیا تو اس کی شرعی سزا دی کسی نے زنا کیا تو بھی سزا دی چوری کی تو بھی سزا دی ۔۔۔۔۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پوری دنیا کی سب سے کامیاب ریاست قائم ہوئی مدینہ پاک کا ہر گھر خوش حال ۔۔ آپس میں ایسی محبت کے جس کی مثال نہیں ملتی ۔۔۔ یہ کس کا نتیجہ تھا ؟؟؟ حدود پر عمل درآمد کا ۔۔۔۔۔ سزاؤں پر عمل کی وجہ سے چور چوری کی اور زانی زنا کی ڈاکو لوٹ مار کی کوشش تو دور سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ آج اگر ہمیں معاشرے میں امن قائم کرنا ہے تو ہمیں حدود اللہ پر سختی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا ۔۔۔
آخر میں ایک دنیاوی مثال عرض کرتا ہوں اور نتیجہ قارئین کی سپرد کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ چناچہ 
چین میں چوری کی سزا موت ہے‘ چور کو سر پر گولی ماری جاتی ہے اور گولی کا معاوضہ اس کے ورثاء سے وصول کیا جاتا ہے‘ جب تک ورثاء معاوضہ نہ دیں لاش نہیں لے جاسکتے۔ چینی لوگوں کا قول ہے کہ اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو مکئی لگاؤ‘ اگر تم دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو درخت لگاؤ‘ اگر تم صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو لوگوں کی تربیت کرو اور تعلیم دو۔
ایوب خان کے دورمیں واہ کے آرڈیننس کمپلیکس کی تعمیر کی گئی تو چین کے ایک وفد نے دورہ کیا اور انہوں نے دورے کے دوران عمارت کو ٹپکتے ہوئے پایا۔میزبان نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ عمارت ابھی نئی نئی بنی ہے اس لئے ٹپک رہی ہے تو چین کے ایک رکن نے ہنستے ہوئے کہا کہ شروع شروع میں ہماری عمارتیں بھی ٹپکتی تھیں لیکن ہم نے ایک ٹھیکیدار کو گولی ماردی ‘اس کے بعد چھت نئی ہو یا پرانی کبھی نہیں ٹپکتی۔
آپ دیکھ لیں کہ آج چین کس قدر ترقی کر چکا ہے اور ہمارا ملک وہیں ہے جہاں وقت آزادی تھا ۔۔۔۔ 
مکمل تحریر >>

Tuesday, 21 March 2017

Challenge to Punjab Police by Allama Khadim Hussain Rizvi

Allama Khadim Hussain Rizvi Challenge to Punjab Police
Allama Khadim Hussain Rizvi dedicated his life for Islam and Namoos e Risalat
he is leader of Tehreek Labbaik Ya Rasool Allah peace be upon him
he is a good leader and great scholar of Islam
listen his speech and refresh you faith

مکمل تحریر >>

Monday, 20 March 2017

علامہ حامد سعید کاظمی با عزت بری

کچھ عرصہ قبل حج اسکینڈل میں ملک پاکستان کے عظیم دینی اور روحانی گھرانے سے تعلق رکھنے والے علامہ حامد سعید کاظمی صاحب کا نام سامنے آنے پر پاکستان کے دینی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جانے لگا جس شخص کے پاس علامہ صاحب اور دینی حلقوں کے خلاف کوئی اور بات ہاتھ نہیں آتی تھی وہ بھی حج اسکینڈل کو سامنے رکھ کر علماء حق پر انگلیاں اٹھانا شروع ہو جاتا تھا 
حالانکہ علامہ کاظمی صاحب کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ میں اس میں بے قصور ہوں مجھے پھنسایا گیا ہے لیکن اس وقت کسی نے انکی بات کا اعتبار نہیں کیا لیکن الحمد للہ اللہ رب العزت نے علامہ صاحب کے حق میں فیصلہ کروایا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا 
اب ناقدین کے منہ بند ہو گئے ۔۔۔۔ اگر کوئی قاری بھی ان ناقدین میں شامل ہے تو میرا ان کو مشورہ ہے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ ضرور فرما لیں 




مکمل تحریر >>

Friday, 17 March 2017

کل کے گستاخ اور آج کے گستاخ

کل کے گستاخ اور آج کے گستاخوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں 
آج کے بلاگرز بھی روشن خیال ۔۔۔۔ کل کے گستاخ بھی بہت روشن خیال تھے 
ان میں سے ایک ولید بن مغیرہ تھا 
وہ بھی خود کو بہت روشن خیال سمجھتا تھا کیوں نہ سمجھتا آخر اس کی ماں ایک روشن خیال عورت تھی ۔۔۔۔
آزادی اظہا رائے کا وہ از خود بہت بڑا چمپئن تھا ۔۔۔۔۔سماج میں اپنی رائے کو بیان کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔۔۔۔
ایک دن ’’جرأت ِ تحقیق ‘‘کے نشے نے آپے سے باہر کر دیا بہکتی آواز میں کہنے لگا :
وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ
اے وہ شخص کہ جس پر قرآن اتارا گیا ہے تو مجنون و دیوانہ ہے
جملے تھے یا منہ سے نکلتے شعلے ۔۔۔۔آزادی اظہار رائے کی دہشتگردی ۔۔۔۔ ظلمت میں لتھڑا روشن خیال ماں کا بیٹا بکواس کررہا تھا
کس کی شان میں ؟
کس بارگاہ میں ؟
کس کو کہا تھا؟
وہ جو کائنات کے دولہا ہیں ۔۔۔۔وہ جو محبوبِ کائنات ہیں ۔۔۔۔وہ جو مصدرِ نعمت ہیں ۔۔۔۔۔وہ ،وہ جو وہ نہ ہو تے تو کچھ نہ ہوتا ۔۔۔وہ ،وہ جو جان ہیں جہان کی ۔۔۔۔
یہ وہ دور تھا جب قرآن نازل ہو رہا تھا ۔۔۔۔محبوب کی شان میں گستاخی کی جرأت
ولید بن مغیرہ کایہ جملہ قلب ِ اطہر پر گراں گزرا
محبوب کی دل جوئی کرتے ہوئے رب تعالیٰ نے فرمایا :
وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ
قسم ہے قلم کی اور اس کے نوشتوں کی
مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ
کہ آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں
وَإِنَّ لَكَ لأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ
اور یقیناً آپ کے لیے بے پایاں اجرو ثواب ہے
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ
اور بیشک تمہاری خو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ
پس عنقریب آپ بھی ملاحظہ فرمائیں گے
بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ
اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے
محبوب کی دلجوئی کے بعد گستا خ کی مذمت کیسے کی گئی قرآن کا اسلوب ملاحظہ کیجیے ۔۔۔۔۔ گستاخ ِ رسول کے تمام عیوب کو بیان فرما دیا ،اس کو قیامت تک کے لیے رسوا کرکے رہتی دنیا تک کو بتا دیا گستاخ کے لیے عفو درگزر کی اس کے ہاں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلاَّفٍ مَّهِينٍ
(اے محبوب ) آپ کسی بھی ایسے شخص کی بات نہ سنیے جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل ،
هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ
بہت طعنے دینے والا بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھرنے والا
مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ
بھلائی سے بڑا روکنے والا حد سے بڑھنے والا گنہگار
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ
درشت خو اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا
أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ
اس پر کہ کچھ مال اور بیٹے رکھتا ہے،
إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں ،کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں
سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ
قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے
جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو روشن خیال ماں کا بیٹا تلملا اٹھا اور عالم ِ غیض میں آتش فشاں بن گیا۔
ساری روشن خیالی دھری کی دھری رہ گئی غصہ اس کی کمینگی کی انتہاء کو چھو رہا تھا فوراً ہی اپنی ماں کے پاس پہنچا اور کہا ماں ابھی ابھی محمد(ﷺ )نے میرے بارے میں کئی برائیاں بیان کی ہیں سوائے ایک برائی کہ جسے میں نہیں جانتا کہ میری اصل میں خطا ہے میری ہزاردشمنی کے باوجود مجھے یقین ہے کہ محمد (ﷺ) کی بات غلط نہیں ہو سکتی اب تو سچ سچ بتا دے معاملہ کیا ہے ورنہ تیراسر قلم کر دوں گا ۔
روشن خیال بیٹے کے یہ تیور دیکھ کر ماں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تیرا باپ نا مرد تھا اس لیے ایک چرواہے کے ساتھ میرا نا جائز تعلق قائم ہو گیا جس کے نتیجے میں تو پیدا ہوا
ولید بن مغیرہ اپنے عہد کا روشن خیال تھا یہ تاریخی حقائق ہیں کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ نہیں ہو گی
مکمل تحریر >>

Thursday, 16 March 2017

نواز شریف کی چال

قارئین کرام آپ جانتے ہیں کہ چند دن پہلے ہائی کورٹ کے جج نے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کو فورا ہٹایا جائے اور ان کے ایڈمنز کو فورا گرفتار کیا جائے نیز چوہدری نثار کو بھی عدالت میں  طلب کیا گیا ۔۔
یہ ایک قابل تحسین اقدام تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدالتی احکامات جاری ہونے کے باوجود ابھی تک کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کسی بھی گستاخ ایڈمن کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔
مجھے اس بارے میں ایک دوست سے بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے میری توجہ اس بیان اور عدالتی حکم کی طرف دلائی اور اس نے مجھ سے کہا کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر اب ہی ان ججز اور حکومتی اداروں کو ناموس رسالت کی یاد کیوں آئی ؟ 
جو بات آج جج صاحب نے کہی ہے یہی بات تو کئی سالوں سے علامہ خادم حسین رضوی و دیگر علماء کرام فرما رہے تھے لیکن علماء نے جب ناموس رسالت کی تو انہیں تحفے کے طور پر جیل کی کوٹھری عنایت فرمائی اور علماء کرام پر فورتھ شیڈول کے تحت علماء کرام کو ستایا جانے لگا اور یہی بات پچھلے سال ڈی چوک میں دھرنا دینے والے مظاہرین نے کی اور یہی بات غازی اسلام غازی ملک ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ نے کی لیکن انکو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔۔۔۔ تو سوال یہ ہے کہ آخر اب ایسا کیا ہوگیا کہ جج یا حکومت ان گستاخان رسالت کے خلاف بظاہر ایکشن لینے پر مجبور ہوگئی 
تو جناب اس میرے اس دوست نے کہا کہ حضرت صاحب مجھے اس میں ایک سازش کی بو آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ سب جانتے ہیں کہ اہل سنت نے سوشل میڈیا پر بھی دین کا کام جاری رکھا ہے خصوصا تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ نے سوشل میڈیا کے ذریعے کفی مقبولیت حاصل کی ہے اور ناموس رسالت سے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو روشناس کروایا ہے 
اس کے مقابلے میں نواز شریف اور اس کی پارٹی کی مقبولیت فیس بک اور دیگر سوشل سائٹس پر کم ہوئی ہے حکومت کو اب یہ خوف لاحق ہے کہ اگر سوشل میڈیا یونہی چلتا رہا اور سنی خصوصا تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ کے قائد علامہ خادم حسین رضوی صاحب اسی طرح ملک میں کام کرتے رہے تو آنے والے الیکشن میں سنی ہمیں ٹف ٹائم دے سکتے ہیں 
اس خطرے کے پیش نظر حکومت نے ایک سوچی سمجھی گیم کھیلی اور سوشل میڈیا کو بند کرنے کا بہانہ تلاش کیا اور وہ بہاناہ تھا گستاخانہ مواد ۔۔
گستاخانہ مواد کی آڑ میں نواز شریف سوشل میڈیا کو بند کرنا چاہتے ہیں تاکہ اہل سنت کا آپس میں رابطہ کم ہو جائے اور الیکشن میں اہل سنت آگے نہ آ سکیں 
یہ میرے اس دوست کی ذاتی رائے ہے جو میں نے قارئین کی نظر کی ہے 
اگر حکومت واقعی ان گستاخوں سزا دینے میں سنجیدہ ہے تو حکومت کو چاہیے کہ فورا ان تمام گستاخوں کو گرفتار کرے اور قانون ناموس رسالت کے تحت سزا دے 
مکمل تحریر >>

Saturday, 11 March 2017

خدارا۔۔۔۔۔! اکابرین کی لاشوں پر سیاست نہ کرو ۔۔۔۔

الحمد للہ ہمارا تعلق اس جماعت کے ساتھ ہے جن کے بزرگوں نے بڑی قربانیوں کے بعد بر صغیر میں اسلام کی ترویج و اشاعت کی ۔ اس سلسلہ میں ہمارے اکابرین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے لیکن ہمارے بزرگ استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے اور اسلام کی تعلیمات سے زمانے کو منور کیا ۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جیسے جیسے اکابرین اس دنیا سے رخصت ہوتے گئے انکی دینی خدمات اور انکے طریقہ کار کو پس پشت ڈال دیا گیا ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہےکہ جیسے ہی کوئی پیر یا کوئی عالم دین دنیا سے رخصت ہوتا ہے اس کے پیچھے صرف اپنے بڑوں کی لاشوں پر چندے اکٹھے کرنے والے ہی باقی رہتے ہیں باقی کوئی نظر نہیں آتا ۔ جس کی وجہ سے تبلیغ دین کا وہ کام جو وہ عالم دین یا پیر صاحب کرتے تھے وہ انہیں کی ذات تک محدود رہتا ہے ۔ آنے والی نسلیں صرف اپنے پیٹ اور خواہشات کی آگ بجھانے کے لئے اپنے بزرگوں کا نام استعمال کرتے ہیں ان جیسا کام نہیں کرتے 
یہی صورت حال ملک پاکستان کے مشہور و معروف دینی ادارے جامعہ نعیمیہ کا ہے جن کے اکابرین سادگی اور انکساری کی ایک مثال تھے جن کے اکابرین نے کبھی کسی کے آگے دست درازی نہیں کی تھی ۔ کبھی کسی حکمران کے آگے سر نہیں جھکایا تھا انکے صاحبزادگان و متعلقین آج حکمرانوں کی گود میں جا بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا وہ آج آپ کے ساتھ ہیں  کل کسی اور کے ساتھ ہونگے  ۔ 
آج کے اس پر فتن دور میں جہاں دشمنان اسلام ایک ہوکر اسلام اور بانی اسلام کے خلاف زبان درازں کر رہے ہیں ۔ اور قادیانی لابی کو مکمل طور پر سپورٹ کر رہے ہیں وہیں ہمارے اپنے ادارے اور جامعات خاموش ہی نہیں بلکہ مردار ہوچکے ہیں خصوصا جیسے جامعہ نعیمیہ ۔۔۔۔ 
جن حکمرانوں نے قادیانیوں کو اپنا بھائی کہا ۔ انکی مکمل سپورٹ کی ۔ علمائے کرام کے خلاف فورتھ شیڈول قائم کیا ۔ مساجد میں اذانوں پر پابندی لگائی۔ سپیکرز بند کروا دیے ۔ ایک میچ کی خاطر مسجد کو تالے لگا دیئے ۔ ایسے حکمرانوں کو اپنے اجتماعات اور جلسوں میں بلا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔۔ یہی ۔۔۔۔ کہ 
روح محمد ﷺ تمہارے جسموں سے نکل چکی ہے ۔۔۔۔۔؟
اس کا جواب ہر وہ شخص دے جو ایسے لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور انکے خلاف زبان کھولنے سے ڈرتے ہیں 
مکمل تحریر >>

Thursday, 9 March 2017

عاصمہ جہانگیر کے قادیانی ہونے کا ثبوت

سابق صدر بار عاصمہ جہانگیرجن کی اسلام مخالف سوچ اور منفی رویہ کئی بار عوام کے سامنے آ چکا اور یہ ثابت ہو چکا کہ عاصمہ جہانگیر ایک قادیانی ہے جو دین اسلام کی مخالف اور ختم نبوت کی انکاری ہے اس کی ایک تازہ ترین مثال کل سامنے آئی جب عاصمہ جہانگیر نے عدالت سے باہر آکر توہین رسالت کے مقدمے کے وکیل طارق اسد ایڈو کیٹ پر اپنے محافظوں سمیت حملہ کرنے کی کوشش کی 
ہوا کچھ یوں کہ ہائی کورٹ میں توہین رسالت کے مقدمے کی سماعت کے بعد جب وکلا عدالت سے باہر آئے تو طارق اسد ایڈوکیٹ نے عاصمہ جہانگیر سے کہا کہ کیا آپ توہین رسالت کے مقدمے میں میرا ساتھ دیں گی ؟ تو انہوں نے کہا کہ میرا اس معاملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور چینختے ہوئے کہنے لگی اس عدالت میں جج نہیں مولوی بیٹھا ہے جس نے عدالت کو مسجد بنا رکھا ہے ۔۔۔ (معاذ اللہ ) ۔
اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ کیا ایک مسلمان ایسی بات کر سکتا ہے ؟؟ پھر اتنا ہی نہیں طارق اسد ایڈو کیٹ نے یہاں تک بھی مطالبہ کیا کہ آپ ایک بار میڈیا پر آکر ختم نبوت کا اقرار کریں ۔۔۔۔ لیکن اس پر بھی عاصمہ جہانگیر سیخ پا ہوگئیں ۔۔۔۔ 
اس واقعے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ عاصمہ جہانگیر ایک قادیانی ہے اور پاکستانی آئین کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہیں 
اس لئے عاصمہ جہانگیر کو پٹہ ڈالا جائے ورنہ ایک اور ممتاز قادری سامنے آ جائے گا ۔۔۔ انشاء اللہ 

مکمل تحریر >>